پاکستانی حکومت نے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث کسی قسم کا رابطہ یا بات چیت کرنے سے انکار کردیا
اسرائیل کی جانب سے حکومتپاکستان سے رابطے کی کوشش، پاکستانی حکومت نے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث کسی قسم کا رابطہ یا بات چیت کرنے سے انکار کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی ذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی حکومت نے پاکستان کی حکومت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیل چاہتا ہے کہ پاکستان اس سے براہ راست بات کرے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات استوار ہوں۔ تاہم پاکستان فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث اسرائیل سے کسی قسم کی بات چیت یا تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتا۔ اسرائیل کی جانب سے پاکستان سے رابطہ کرنے کی کوشش تب کی گئی جب پاکستان نے بھارت اور اسرائیل کے حملے کا منصوبہ عمل میں آنے سے قبل ہی ناکام بنایا۔
بھارت اور اسرائیل 27 اور 28 فروری کی شب کو پاکستان پر فضائی اور میزائل حملے کرنے کی تیاری کر چکے تھے، تاہم حکومت پاکستان نے بروقت سفارت کاری کے ذریعے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا تھا۔ دوسری جانب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے نجی ٹی وی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے موجودہ صورتحال میں متحرک کردار ادا کیا اور بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔
سول اور ملٹری لیڈرشپ میں رابطے کی صورتحال مثالی رہی۔ سعودی ولی عہد نے موجودہ حالات میں پاکستان کا ہنگامی دورہ کرنا تھا، سعودی ولی عہد کا میرے ساتھ طے ہوا تھا کہ وہ دہلی براستہ پاکستان آئیں گے۔ بھارت میں بحث چھڑنے پر مودی سرکار دباؤ میں ہے۔ بھارت اور اسرائیل میں انٹیلی جنس شیئرنگ ہوتی ہے۔ 27 فروری کو خدشہ تھا بھارت مزید کارروائی کرسکتا ہے۔
بھارت کی طرف سے پانچ سے زیادہ مقامات پر حملے کا خدشہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مودی سے بات ہوگی تو کشمیرکا ہی ذکر ہوگا۔ موجودہ صورتحال کا ہر زاویہ کشمیرکے گرد ہی گھومتا ہے۔ کشمیر کامسئلہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پلوامہ پر بھارت کا ڈوزیئر پاکستان کے زیر غور ہے۔ بھارت نے پلوامہ ڈوزئر تیار کرنے میں 12 دن لگائے۔
پاکستان ڈوزیئر کا مشاہدہ کر کے بھارت کو جواب دے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فضائیہ نے دوسری کوشش لاہور سیالکوٹ بارڈر سے کی تھی جسے ناکام بنایا گیا۔بھارت نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے ہمیں وہ کرنا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہے۔ یہ فیصلہ کن وقت ہے۔ تمام فیصلے سیاسی اتفاق رائے سے کرنا ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی نے ایک سوال پر کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاق رائے ہوا تھا۔ پچھلی حکومت نیشنل ایکشن پلان پرذمہ داری نبھاتی توآج پاکستان گرے لسٹ میں نہ ہوتا۔